اسحاق ڈار کیا کر رہے ہیں

وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی پاکستان میں پراپرٹی کے بزنس میں خصوصی دلچسپی کے پیچھے واقعی پاکستان میں جائیدادوں کی خریدوفروخت کے نظام کو ٹیکس نیٹ میں لانا، کالے دھن کی روک تھام اورحکومتی ریونیو میں اضافے کے لئے سنجیدہ اور مخلصانہ کوششیں ہیں یا پھر وہ کہانی سچی ہے جس کے مطابق دوبئی میں پراپرٹی کے دھندے میں چندبرس پہلے شدید منداہوا،ایک تحقیق کے مطابق دوبئی میں بھارتیوں اور برطانویوں کے بعد تیسرے بڑے سرمایہ کار پاکستانی ہیں، اسحاق ڈار اور ان کے صاحبزادوں کی دوبئی میں جائیدادیں اور کاروباری مفادات ہیں لہٰذا وہاں کے حکمرانوں نے انہیں طلب کیااور حکم دیا کہ پاکستان میں پراپرٹی کے شعبے میں بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری کا رخ دوبئی کی طرف کیا جائے اور یہ کام حکومت ہی اپنے ہتھکنڈوں کے ساتھ کر سکتی ہے تاکہ دوبئی کی مارکیٹ مکمل بحال ہو سکے، یہی وجہ ہے کہ وفاقی وزارت خزانہ نے اٹھارہویں ترمیم کے تحت صوبائی خود مختاری کو کچلتے اور معاملات میں غیر روایتی مداخلت کرتے ہوئے پاکستان میں پراپرٹی کی سرکاری قیمتوں میں اچانک دو سو فیصد سے ایک ہزار فیصد تک اضافہ کر دیا جو اس سے پہلے ڈی سی ریٹ کے ذریعے طے کی جا رہی تھیں، پلاٹوں کی خریدو فروخت پر ہی ٹیکس میں ہوش ربا اضافہ نہیں کیا گیا بلکہ پلاٹ رکھنے پر بھی ٹیکس لگا دیا گیا۔

یہ بہت ہی ٹیکنیکل معاملہ ہے کہ حکومتیں ہمیشہ ملکوں میں سرمایے کے داخلے کو یقینی بنانے کے لئے کام کرتی ہیں، کسی بھی دوسرے ملک کی طرح پاکستان میں بھی دوطرح کے لوگ پلاٹ خریدتے ہیں ، ایک وہ ہیں جو زندگی بھر کی بچت کے ساتھ گھر بنانا چاہتے ہیں اور دوسرے سرمایہ کار ہوتے ہیں۔ سرمایہ کاروں میں بھی دو بڑی اقسام ہیں، ایک وہ ہیں جو پاکستان میں کارخانے لگانے اور کاروبار جمانے کی مشق اس وجہ سے نہیں کرتے کہ حکمرانوں کے کرپٹ ہونے کی وجہ سے تمام ادارے کرپٹ ہیں۔ وہ ہاتھی کا پیٹ ، اژدھے کاڈنگ رکھنے والے ان مگرمچھوں کامقابلہ نہیں کرپاتے، وہ پلاٹوں میں سرمایہ کاری کرتے اور اپنا سرمایہ محفوظ رکھتے ہوئے منافعے کی امید لگاتے ہیں۔ دوسرے سرمایہ کار وہ ہیں جو دن رات بیرون ملک محنت کر کے پیسہ کما رہے ہیں، وہ پاکستان پیسہ بھیجتے ہیں ، بینک میں رکھنے کو غیر سود مند سمجھتے ہیں، اپنے رشتے داروں پرکاروبار کے سلسلے میں اعتماد نہیں کر پاتے تو سرمایہ پلاٹوں کی صورت میں محفوظ کر لیتے ہیں تاکہ جب عمر بھر کی محنت کے بعد واپس آئیں تو ان کے پاس بڑھاپا گزارنے کا سہارا موجود ہومگر پاکستان کی وزارت خزانہ اوراس کے ماتحت ادارے لوگوں کی بچتوں کو کالا دھن قرار دے کر اس سرمایہ کاری کا راستہ بند کر رہے ہیں۔ جب لوگوں کو یہ بتایا جائے گا کہ وہ پاکستان میں اپنی بچتیں رکھنے کی صورت میں ٹیکس جمع کرنے والے کرپٹ اداروں کے ہتھے چڑھ جائیں گے تو وہ یقینی طور پر اپنا سرمایہ پاکستان کی بجائے کسی دوسرے ملک میں محفوظ کر لیں گے او ر اس کے لئے دوبئی سے بہتر کون سی جگہ ہو سکتی ہے۔
یہاں دو خواب دکھائے جا رہے ہیں، ایک یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں پلاٹ سستے ہوجائیں گے اور غریبوں کو دستیاب ہوں گے اور دوسرا یہ کہ پاکستان کو تیس سے بتیس ارب روپے کا خطیر ریونیو میسر آئے گا۔ میں سیاسیات کا طالب علم ہوں ، معاشیات کا نہیں مگر کامن سینس ضرور رکھتا ہوں۔ یہ درست ہے کہ جب یہاں سے انویسٹر بھاگ جائے گا تو پلاٹ سستے ہوجائیں گے مگر یہ کس قیمت پر سستے ہوں گے کیا آپ نے اس کے بارے سوچا ہے۔ سب سے پہلے یہاں کی گئی سرمایہ کاری ڈوبے گی اور سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کا اعتماد بحال کرتے ہوئے اسی طرح عشرے لگا دے گا جس طرح مسلم لیگی حکومت نے ماضی میں فارن کرنسی اکاونٹس کو منجمد کرتے ہوئے ان کے اعتماد کا قتل کیا تھا۔ دوسرا سب سے بڑی زک پراپرٹی ڈیلرز نہیں بلکہ ڈویلپرز کے کاروبار پر پڑے گی۔ اس وقت ڈویلپرز کی وجہ سے درجنوں صنعتوں کا پہیہ چل رہا ہے جن میں سڑکیں، اینٹیں ، رنگ روغن سمیت بہت سارے کارخانے اور ان سے وابستہ مزدور شامل ہیں۔جب آپ درجنوں صنعتوں میں بے روزگاری کی کیفیت پیدا کریں گے تو یقینی طور پر آپ کی جی ڈی پی متاثر ہوگی۔ جب آبادی کا ایک بڑا حصہ روزگار اور روزی روٹی بارے تشویش کا شکار ہو گا تو اس کے بعد کوئی احمق ہی یہ خیال کر سکتا ہے کہ کسی کے پاس سستے پلاٹ خریدنے اور گھر بنانے کے لئے رقم موجود ہو گی چاہے وہ پہلے سے آدھی قیمت پر ہی کیوں نہ دستیاب ہوں۔ آپ کسی بھی شعبے میں سرمایہ کاری کا قتل کر نے کے بعد ترقی کی امید کیسے رکھ سکتے ہیں ، یہ وہ شعبہ ہے جس نے دوسرے شعبوں کے مقابلے میں تیز رفتاری سے ترقی کی ہے اور پاکستان کا چہرہ سجایا ہے اور آپ دانستہ یا نادانستہ طور پراسے ہی تباہ کرنے جا رہے ہیں۔ اسحاق ڈار ریونیو بڑھانے کے نام پروہی غلطی کرنے جا رہے ہیں جوپنجاب میں بڑی گاڑیوں کی خریداری پر بھاری ٹیکس لگاکر کی گئی تھی۔اس کے نتیجے میں پنجاب میں چلنے والی بڑی گاڑیوں کی بہت بڑی تعداد سندھ اور اسلام آباد کی نمبر پلیٹوں کے ساتھ نظر آتی ہیں، صوبائی ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کا ریونیو بڑھنے کی بجائے کم ہوگیا تھا، گاڑیاں خریدنے والوں نے لاکھوں روپے اضافی ٹیکس دینے کی بجائے محض پانچ ، سات ہزار دے کرکار ڈیلرز کے ذریعے پنجاب سے باہر کا نمبر لگوالیا تھا۔

سرمایہ کاری سے باہر نکلتے ہیں، غریب لوگوں کی بچتوں بارے سوچتے ہیں،وراثت میں ملے ہوئے پلاٹوں کو ایک طرف رہنے دیں مگر دوسرے پلاٹ وہ ہیں جو غریبوں نے محنت مزدوری کر کے خریدے اور سوچا کہ وہ دوبارہ محنت مزدوری کر کے پیسے جمع کریں گے اور گھر بنا لیں گے ۔ ایک طرف وہ کرائے کے گھر میں رہ رہے ہیں اور دوسری طرف یہ پلاٹ یقینی طور پر انہیں کچھ کما کر نہیں دے رہے، سوال یہ ہے کہ ان غریبوں کی بچتوں پر آپ ٹیکس کس طرح لگا سکتے ہیں جنہیں وہ اپنے بچوں کے ا چھے مستقبل کے لئے محفوظ کرنا چاہتے ہیں ، وہ پلاٹ کے اندر سے ٹیکس کہاں سے نکال کر دیں گے۔ یہاں رہائشی گھروں اور دوکانوں پر ٹیکس کی سمجھ آتی ہے مگرکیا ان پلاٹوں کی مٹی بیچ کر ٹیکس ادا کیا جائے گا۔ یہاں اس معاملے کا دوسرا پہلو بھی اہم ہے، کیا آپ اس امر کی حوصلہ شکنی کرنا چاہتے ہیں کہ لوگ پلاٹ بار بار مت بیچیں کہ آپ نے تین سال کے اندر پلاٹ دوبارہ بیچنے پر ٹیکس عائد کر دیا ہے جوکیپٹیل گین کی صورت پہلے برس دس فیصد، دوسرے برس ساڑھے سات فیصد اور تیسرے برس بیچنے کی صوررت پانچ فیصد وصول کیا جائے گامگر چوتھے برس ٹیکس نہیں ہو گالیکن پلاٹ فروخت ہونے پر تو حکومت کو ہمیشہ سے ٹیکس ملتا ہے اور اب یوں ہو گاکہ بہت سارے لوگ پلاٹ بیچنے سے باز آجائیں گے یوں ریونیو بڑھنے کی بجائے کم بھی ہو سکتا ہے۔کیا یہ امر مضحکہ خیز نہیں ہے کہ کنزیومرز کے رائٹس پر ڈیلرز نے آپ کے ساتھ معاملات طے کئے ہیں اوریوں حکومت نے پاکستان میں کنزیومرز کی تنظیمیں نہ ہونے کا فائدہ اٹھایا ہے۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ڈیلرز کے سامنے کمیشن پر ان کے اپنے ٹیکس کا معاملہ بھی رکھا گیا، جب وہ پوری طرح ہراساں ہو گئے تو معاملات کو قومی مفادمیں طے کرنے کا لالی پاپ دے دیا گیا۔

سوال غیر اخلاقی سہی مگر پانامہ میں سرمایہ کاری کرنے والوں سے بہتر کون جانتا ہے کہ حکومتیں اپنے ملک میں سرمایہ لانے اور اپنے ملکوں کی معیشت کو کھڑا کرنے کے لئے کیسے کیسے پاپڑ نہیں بیلتیں، کیا غریب ممالک ان اعلیٰ اصولوں کو اپنا سکتے ہیں جن کے نتائج ڈرتے ہوئے جدید اور امیر ترین ریاستیں بھی اپنے اور اپنے شہریوں کے مفاد میں آنکھیں بند کر لیتی ہیں۔ کیا انگلینڈ اور دوبئی جیسے ممالک کی چمکتی دمکتی معیشت کے پیچھے وہ کالا دھن نہیں جو وہ دوسرے ممالک کے شہریوں سے کھینچ کر لائے ہیں۔ یہاں ہمیں جناب اسحاق ڈار کے بارے دو طرح کے لوگوں میں سے ایک کے ساتھ اتفاق کرنا پڑے گا،ایک وہ ہیں جو ان کی معاشی منصوبہ بندی کی اہلیت بارے شکوک کاشکار ہیں،وہ کہہ رہے ہیں کہ ایک چارٹرڈ اکاونٹنٹ ہی روزا نہ سونے کا انڈا دینے والی مرغی کوذبح کر کے تمام انڈے ایک ہی دن نکال لینے کا سوچ سکتا ہے اور دوسرے وہ ہیں جو، معذرت کے ساتھ،ان کی اہلیت نہیں بلکہ نیت پر شک کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کسی بھی ملک کے معاشی فیصلہ سازوں کے خاندانی کاروباری مفادات اس ملک سے باہر ہرگز نہیں ہونے چاہئیں۔ ہم بھی دوبئی کے مالیاتی بحران کا مکمل خاتمہ چاہتے ہیں مگر اس کی قیمت کسی بھی صورت پاکستان کے شہریوں، سرمایہ کاروں، معیشت اور کامیاب اکنامک سیکٹرز سے وصول نہیں کی جا نی چاہیے۔

کالم شہریاراں / صفحہ 2 روزنامہ پاکستان / یکم اگست 2016/ ۔۔۔ نجم ولی خان

(Visited 127 times, 1 visits today)

Leave a Comment